Saturday, 3 August 2013

ntroduction Hazrat Data Ganj Buksh - Urdu

ntroduction Hazrat Data Ganj Buksh - Urdu

حضرت سید ابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ (400ھ تا 465ھ / 1009ء تا 1079ء) ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔ روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ سے پائی ۔ مرشد کے حکم سے 1039ء میں لاہور پہنچے. کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔ عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیں اور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں۔


نام و نسب 

آپ کا پورا نام شیخ سیّد ابو الحسن علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ لیکن عوام و خواص سب میں "گنج بخش" یا "داتا گنج بخش" کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ 400 ہجری میں غزنی شہر سے متصل ایک بستی ہجویر میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید عثمان جلابی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ جلاب بھی غزنی سے متصل ایک دوسری بستی کا نام ہے جہاں سید عثمان رحمتہ اللہ علیہ رہتے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ کے واسطے سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے ہیں۔
 

اساتذہ 

آپ رحمتہ اللہ علیہ کے اساتذہ میں حضرت شیخ ابو العباس اشقاقی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو جعفر محمد بن المصباح الصید لانی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری رحمتہ اللہ علیہ، شیخ ابوالقاسم بن علی بن عبداللہ الگرگانی رحمتہ اللہ علیہ، ابو عبداللہ محمد بن علی المعروف داستانی بسطامی رحمتہ اللہ علیہ، ابو سعید فضل اللہ بن محمد مہینی اور ابو احمد مظفر بن احمد بن حمدان رحمتہ اللہ علیہ کے نام ملتے ہیں۔

 
تعلیم طریقت 

طریقت میں آپ کے شیخ شیخ ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔ ان کے حالات قلمبند کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداءآپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے ساتھ ہے۔ تفسیر، حدیث اور تصوف تینوں کے آپ عالم تھے۔ تصوف میں آپ حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے مذہب پر تھے۔ حضرت شیخ حضرمی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید اور حضرت سروانی رحمتہ اللہ علیہ کے مصاحب تھے۔ ساٹھ سال تک مخلوق سے گم اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے۔ زیادہ تر قیام جبل لگام پر رہتا تھا۔ میں نے آپ سے زیادہ بارعب اور صاحب ہیبت کوئی شخص نہیں دیکھا۔ صوفیوں کے لباس سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ ایک مرتبہ میں آپ کو وضو کرانے کے لیے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ میں ایک آزاد آدمی ہوں آخر میں ان پیروں کی کیوں غلامی کروں جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور پورا ہو گا۔ آپ نے فرمایا، بیٹا کو خیال تیرے دل میں پیدا ہوا ہے میں اسے جانتا ہوں، ہر کام کا ایک سبب اور زریعہ ہوتا ہے۔ یہ خدمت اور ملازمت آدمی کی بزرگی کا سبب بن جاتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حق تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک سپاہی زادے کو تاج شاہی پہنا دیتا ہے۔

جس روز آپ کی وفات ہوئی تو آپ بانیاں اور دمشق کے درمیان پہاڑ پرواقع ایک گاؤں بیت الجن میں تھے، اور آپ کا سر میری گود میں تھا۔ میرا دل سخت مضطرب اور تکلیف میں تھا، جیسے کہ ایسے محسن اور دوست کی علیحدگی کے خیال سے ہونا ہی چاہیے تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا، بیٹا! میں اعتقاد کا مسئلہ بیان کرتا ہوں۔ اگر تو اپنے آپ کواس کے مطابق درست کر لے گا تو تیرے دل کی یہ تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ یہ بات یاد رکھ کہ اللہ عزل و جل کوئی کام الل ٹپ نہیں کرتا، وہ تمام حالات کو ان کے نیک وبد کا لحاظ رکھ کر پیدا فرماتا ہے۔ تیرے لیے لازم ہے کہ خدا کے فعل میں اس سے جھگڑا نہ کر اور جو کچھ وہ کرتا ہے۔ اس پر رنجیدہ نہ ہو۔ آپ نے ابھی اتنی بات فرمائی تھی کہ اپنی جان خداوند کریم کے سپرد کر دی۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔

کسب روحانی کے لیے آپ (حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ) نے شام، عراق، فارس، قہستان، آزربائیجان، طبرستان، خوزستان، کرمان، خراسان، ،وراء النہر اور ترکستان وغیرہ کا سفر کیا۔ ان ممالک میں بے شمار لوگوں سے ملے اور ان کی صحبتوں سے فیض حاصل کیا۔ صرف خراسان میں جن مشائخ سے آپ ملے ان کی تعداد تین سو ہے۔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے خراسان میں تین سو اشخاص ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک سارے جہان کے لیے کافی ہے۔

دوسرے ہم عصر جن سے متاثر ہوئے 

اپنے زمانے کے جن بزرگوں سے آپ خاص طور پر متاثر ہوئے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ان کے بارے میں تاثرات بھی قوسین میں درج ہیں۔ شیخ محمد زکی بن العلا رحمتہ اللہ علیہ (زمانے کے سردار اور محبت کا شعلہ)، شیخ القاسم سدسی رحمتہ اللہ علیہ (پیر مجاہدہ)، شیخ الشیوخ ابو الحسن بن سالبہ رحمتہ اللہ علیہ (توحید میں روشن بیان)، شیخ ابواسحاق بن شہریار (صاحب دبدبہ)، شیخ ابوالحسن علی بن بکران (بزرگ صوفی)، شیخ ابو عبداللہ جلیدی رحمتہ اللہ علیہ (بہت احترام والے)، شیخ ابو طاہر مکشوف (جلیل القدر بزرگ)، شیخ احمد بن شیخ خرقانی، خواجہ علی بن الحسین السیر کانی (وقت کے سیاح)، شیخ مجتہد ابوالعباس دامغانی (خدا کے اقبال کا سایہ)، خواجہ ابو جعفر محمد بن علی الجومینی (محقق بزرگ)، خواجہ رشید مظفر بن شیخ ابو سعید (دلوں کا قبلہ)، خواجہ شیخ احمد جمادی سرخسی (وقت کے پہلوان) اور شیخ احمد نجاّر سمرقندی (زمانے کے بادشاہ) رحمہم اللہ۔


دو اہم واقعات 

اپنے تلاش و جستجو کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک مشکل پیش آئی۔ اس کے حل کے لیے میں نے بہت مجاہدے کیے۔ مگر یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ اس سے پہلے بھی مجھے ایک مشکل پیش آئی تھی اور اس کے حل کے لیے میں نے حضرت شیخ ابو یزید رحمتہ اللہ علیہ کی قبر کی مجاوری اختیار کر کے اس پر غور وفکر کیا تھا اور میری وہ مشکل وہاں حل ہو گئی تھی۔ اب کے میں نے پھر ایسا کیا۔ برابر تین ماہ تک ان کا مجاور (پڑوسی) بنا رہا۔ ہر روز تین مرتبہ غسل کرتا رہا۔ اور تیس دفعہ وضو کرتا رہا۔ لیکن میری یہ مشکل حل نہ ہوئی۔ بالآخر میں نے خراسان جانے کا ارادہ کیا اور راستے میں رات کے وقت ایک خانقاہ میں رات بسر کرنے کے لیے ٹھہرا۔ وہاں صوفیوں کی ایک جماعت بھی تھی۔ میرے پاس اس وقت موٹے کھُردرے ٹاٹ کی ایک گودڑی تھی۔ اور وہی میں نے پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں ایک عصا اور کوزہ (لوٹا) تھا۔ اس کے سوا اور کوئی سامان میرے پاس نہیں تھا۔ ان صوفیوں نے مجھے بہت حقارت کی نظر سے دیکھا۔ اور اپنے خاص انداز میں ایک دوسرے سے کہا کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور وہ اپنی اس بات میں سچے تھے، کیونکہ میں فی الواقع ان میں سے نہ تھا۔ میں تو محض ایک مسافر کی حیثیت سے رات بسر کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچ گیا تھا۔ ورنہ ان کے طور طریقوں سے میرا کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے خانقاہ کے نیچے کے ایک کمرہ میں مجھے بٹھا دیا۔ اور ایک سُوکھی روٹی اور وہ بھی روکھُی میرے آگے رکھ کر خود کھانے کے لیے اوپر چوبارہ میں جا بیٹھے۔ جو کھانے وہ خود کھا رہے تھے ان کی خوشبو مجھے آ رہی تھی۔ اور اس کے ساتھ چوبارہ پر سے وہ طنزیہ انداز میں مجھ سے باتیں کرتے تھے۔ جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو خربوزے کے کر بیٹھ گئے۔ اور چھلکے مجھ پر پھینکتے رہے۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی طبیعت کی خوشی اس وقت میری توہین پر موقوف تھی۔ میں اپنے دل میں خدا سے کہہ رہا تھا، بارِ خدایا، اگر میں نے تیرے دوستوں کا لباس نہ پہنا ہوا ہوتا تو میں ضرور ان کی ان حرکات کا مزا ان کو چکھا دیتا۔ لیکن چونکہ میں اسے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ابتلا سمجھ کر برداشت کر رہا تھا، اس لیے جس قدر وہ طعن وملامت مجھ پر زیادہ کرتے تھے میں خوش ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ اس طعن کا بوجھ اٹھانے سے میری وہ مشکل جس کے لیے میں مجاہدوں اور اس سفر کی مشقت اٹھا رہا تھا وہیں حل ہو گئی۔ اور اسی وقت مجھ کو معلوم ہو گیا کہ مشائخ رحمہم اللہ جاہلوں کو اپنے درمیان کیوں رہنے دیتے ہیں اور ان کا بوجھ کس لیے اٹھاتے ہیں۔ نیز یہ کہ بعض بزرگوں نے ملامت کا طریقہ کیوں اختیار کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس سے بعض اوقات وہ عقدے حل ہو جاتے ہیں جو دوسرے طریقوں سے حل نہیں ہوتے۔

عراق کا ایک واقعہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ عراق میں اپنے قیام کے زمانے میں ایک دفعہ میں دنیا کمانے اور اسے خرچ کرنے میں بہت دلیر ہو گیا تھا۔ جس کسی کو ضرورت پیش آتی وہ میری طرف رجوع کرتا اور میں نہ چاہتا کہ میرے دروازے سے کوئی خالی جائے۔ اس لیے اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ میں بہت زیادہ مقروض اور اس صورتحال سے پریشان ہو گیا۔ آخر وقت کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے مجھے لکھا؛ ۔بیٹا دیکھو! اس قسم کی مشغولیت میں کہیں خدا سے دور نہ ہو جاؤ، یہ مشغولیت ہوائے نفس ہے۔ اگر کسی کے دل کو اپنے سے بہتر پاؤ۔ تو اس کی خاطر پریشانی اُٹھاؤ۔ تمام مخلوق کے کفیل بننے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ اپنے بندوں کے لیے خدا خود کافی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس نصیحت سے مجھے سکون قلب حاصل ہوا۔ اور میں نے یہ جانا کہ مخلوقات سے دور رہنا صحت وسلامتی کی راہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی طرف نہ دیکھے تاکہ کوئی اور بھی اس کی طرف نہ دیکھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ آدمی خود ہی اپنے آپ کو اہم اور بڑی چیز عیاں کرتا ہے ورنہ دنیا اسے کچھ بھی نہیں سمجھتی۔ وہ تو صرف اس سے اپنا کام نکالتی ہے۔

آپ کا طریق 

آپ کے نزدیک صوفی صفا سے مشتق ہے۔ اور صفا کی اصل دل کو مخلوق سے منقطع اور دنیاء غدار سے خالی کر کے اسے اللہ سے جوڑنا ہے۔ گویا اس کا مطلب اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ خدا کی بندگی کی راہ اختیار کرنا ہے۔ نہ کہ کوئی خاص وضع قطع اختیار کرنا۔ آپ فرماتے ہیں؛ کہ طالب کو تمام احوال میں شرع اور علم کا پیرو ہونا چاہیے۔ کیونکہ سلطان علم سلطان حال پر غالب اور اس سے افضل ہے۔ چنانچہ آپ چالیس برس مسلسل سفر میں رہے لیکن کبھی نماز باجماعت ناغہ نہیں کی۔ اور ہر جمعہ کی نماز کے لیے کسی قصبہ میں قیام فرمایا۔ عام رہن سہن عام لوگوں کی طرح رکھتے۔ صوفیوں کی ظاہری رسوم اور وضع قطع سے آپ شیخ طریقت شیخ ابوالفضل محمد بن ختلی رحمتہ اللہ علیہ کی طرح ہمیشہ مجتنب رہے۔ بلکہ اس سے آپ کو ایک گونہ نفرت تھی، اور ان چیزوں کو ریا کاری ونمائش اور معصیت کا نام دیتے تھے۔

نکاح 

نکاح کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ جو شخص مخلوق میں رہنا چاہے اس کے لیے نکاح کرنا شرط ہے۔ اور اگر بغیر نکاح کے اس کے زنا میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے نکاح فرض ہے۔ لیکن جو مخلوق سے الگ تھلگ رہتا ہو اس کے لیے مجرور رہنا اچھا ہے تا کہ اس کی وجہ سے کوئی نیک سخت پریشان نہ ہو اور وہ بھی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ملازمت کر سکے۔ آپ چونکہ اپنی عمر کا بیشتر حصہ سفر اور مسافرت ہی میں رہے۔ اس لیے آپ نے شادی نہیں کی بلکہ تجرد کی زندگی گزار دی۔ لیکن تقدیر کا لکھا سامنے آیا اور میں نے شادی کر لی مگر ایک ہی سال بعد قضائے الہی سے زوجہ کا انتقال ہوا اور پھر شادی نہ کی۔


لاہور میں آمد اور قیام 

آپ اپنے مرشد کے حکم سے خدا کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین کے زمانے ۱۰۳۰ ء تا ۱۰۴۰ ء میں لاہور تشریف لائے۔ آپ سے پہلے آپ کے پیر بھائی حسین زنجانی اس خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے جب آپ کو لاہور آنے کا حکم ہوا تو آپ فرماتے ہیں، کہ میں نے شیخ سے عرض کیا کہ وہاں حسین زنجانی موجود ہیں میری کیا ضرورت ہے؟ لیکن شیخ نے فرمایا، نہیں تم جاؤ۔ فرماتے ہیں کہ میں رات کے وقت لاہور پہنچا اور صبح کو حسین زنجانی کا جنازہ شہر سے باہر لایا گیا۔

تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے میں آپ نے برصغیر ہند کے دوسرے حصّوں کا بھی سفر کیا۔ چنانچہ آپ کشف المحجوب میں حضرت ابو حلیم حبیب بن اسلم راعی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے میں انھیں چھوڑتا ہوں اور مجھے یہ سخت دقت پیش آرہی ہے کہ میری کتابیں غزنی میں ہیں اور میں ملک ہندوستان کے ایک گاؤں بھنور میں ہوں جو کہ ملتان کے گردونواح میں واقع ہے۔ اور بالکل غیر جنسوں میں گرفتار ہوں۔ والحمدللہ علیا لسّرّاءِ ولضّرّاء۔ لیکن آپ کا مقام اور مرکز لاہور ہی رہا۔ اور آخر کار لاہور ہی میں ۴۶۵ ھ میں ۹ محرم الحرام کو انتقال فرمایا اور یہیں مدفون ہیں۔ اِنّاَلِلّہِ وَاِنّاَ اِلَیہِ رَاجِعُون۔ عاشورا کے دن امام عالی مقام کے یوم شہادت اور اس کی تقریبات و مصروفیات کی بنا پر آپ علیہ الرحمۃ کا عرس شریف ۱۸ تا ۲۰ صفر المظفر حکومتی سطح پر منایا جاتا ہے۔

 
آپ کی تصانیف 

آپ نے حسب زیل کتب کی تصنیف فرمائی، لیکن اب کشف المحجوب کے سوا کوئی اور کتاب نہیں ملتی۔

1. کشف المحجوب 
2. کتاب فنا و بقا 
3. منہاج الدین (یہ کتاب اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے مناقب پر تھی۔) 
4. الرعایتہ الحقوق اللہ 
5. شرح کلام منصور 
6. اسرار الحزق المؤنات 
7. نحو القلوب 
8. کتاب البیان لاہل العیان

شعر وشاعری سے بھی آپ کو دلچسپی تھی اور آپ کا دیوان بھی تھا۔ کشف المحجوب میں اس کا زکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کی تصانیف کو اپنے نام سے منسوب کر کے شائع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے میرے شعروں کا دیوان دیکھنے کے لیے مانگا اور پھر واپس نہیں کیا۔ اور اس کے شروع سے میرانام محو کر کے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ چونکہ دیوان کا یہی ایک نسخہ تھا جو وہ لے گیا۔ اس لیے میں کچھ نہ کر سکا اور اس نے میری محنت کو برباد کر دیا۔

اسی طرح ایک اور شخص نے میری دوسری کتاب ۔ منہاج الدین ۔ جو میں نے تصوف پر تصنیف کی تھی، مجھ سے مانگی اور اس پر سے میرا نام مٹا کر عوام الناس میں اسے اپنے نام سے شائع کر دیا۔


روضہ مبارک

آپ کا روضہ ناصر الدین مسعود کے بیٹے ظہیر الدین الدولہ نے تعمیر کروایا۔ اور خانقاہ کا فرش اور ڈیوڑھی جلال الدین اکبر بادشاہ ۱۵۵۵ء تا ۱۶۰۵ ء کی تعمیر ہیں۔ خواجہ معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ ۱۶۳۹ء اور خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے کسب فیض کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر چلہ کشی کی، اور خواجہ معین الدین اجمیری رحمتہ اللہ علیہ نے چلہ کے بعد رخصت ہوتے وقت یہ شعر کہا؛۔

 
گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خُدا 
ناقصاں راپیرِ کامل، کاملاں را رہنما

اسی سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی "گنج بخش" کے نام سے شہرت ہوئی۔

No comments:

Post a Comment

Please Comment to Tell us About your Views

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...