Saturday, 3 August 2013

Syed us Shuhada Hazrat Syed Hamzah

Manaqib Syed Hamza RadiAllahAnho - Urdu

مناقب سید الشہداء
حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ

بِسْمِ اللہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (بقرہ:١٥٤)
جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں ، مگر تم کو خبر نہیں
 
یہ سید الشہداء ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کرنے والوں کے سردار، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک چچاحضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب ہیں، جن کے موتیوں کو پرونے اور جن کی چمک دمک ظاہر کرنے کا فریضہ خاندان نبوت اور علمی خانوادے کے گوہرشب تاب مشہور''مولد نبوی'' (مولود برزنجی) اور شہداء بدر کے اسماء گرامی پر مشتمل کتاب '' جالیۃ الکدر فی نظم اسماء شھداء بدر'' اور دیگر مفید اور جلیل کتب کے مصنف حضرت علامہ سید جعفر بن حسن برزنجی رحمۃ اللہ علیہ نے سر انجام دیا ہے۔

یہ حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ کے عظیم مناقب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے جان کی بازی لگادی ، غزوہ احد میں جن کی شہادت پر ہمارے آقا ومولا اور حبیب مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوئے، اس غزوہ کے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، وہ تاریخ جس کی بنیاد ان جانبازوں نے رکھی۔ یہ مناقب حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہونے والوں کے لیے کئی اسباق اور نصیحتیں اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔

 یہ دلکش اور روح پرور باغ ہے جس کی باد صبا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے احوال کی خوشبو سے معطر ہے اور اس کی جودوسخا کی بارش، حضرت سید الشہداء کے ہمراہ جام شہادت نوش کرنے والے خوش بختوں کے موتیوں جیسے ناموں سے سیراب ہوتی ہے، ان حضرات نے دین مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنی جانوں کی بازی لگادی اور اسلام کے پھیلاؤ کا راستہ ہموار کردیا۔

میرے دل میں اس باغ کے گھنے درختوں میں داخل ہونے، اس کے حوضوں کے چشموں سے سیراب ہونے، نور کے برجوں سے موتیوں کی بارش طلب کرنے اور ان موتیوں کو مندرجہ ذیل سطور کی لڑی میں پرونے کا خیال پیدا ہوا، تاکہ انہیں حضرت سید الشہداء کے مزار مقدس کے پاس مقرر عمل (ایصال ثواب) کے بعد پڑھا جائے، خصوصاً آپ کی خصوصی زیارت (٢) کی رات جس کی روشن صبح ابر آلود نہیں ہوتی بلکہ اجلی اجلی ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اور باکمال بندوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی موسلادھار بارشیں حاصل کی جائیں۔

میں کہتا ہوں کہ وہ سیدنا حمزہ ابن عبد المطلب بن ہاشم، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں، ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ نے ان دونوں ہستیوں اور حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسد مخزومی (حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے دو سال اور ایک قول کے مطابق چار سال زیادہ تھی (٣)، ان دونوں ہستیوں کو مختلف اوقات میں (٤) دودھ پلایاگیا، حضرت سیدالشھداء اور حضرت صفیہ (نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی) کی والدہ، ھالہ بنت اھیب بن عبد مناف بن زہرہ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی چچا زاد بہن تھیں۔
 
آپ کی اولاد میں سے پانچ بیٹے تھے، چار کے نام یہ ہیں:

١۔ یعلی (٥) ٢۔عمارۃ (٦) ٣۔عمرو   اور  ٤۔ عامر

دو بیٹیاں تھیں:

١۔ ام الفضل (٧) ٢۔امامہ (٨) اس وقت حضرت سید الشھداء کی اولاد میں سے کوئی نہیں ہے (٩)

 
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ

اے اللہ! ان پر رحمت و رضوان کی موسلادھار بارش ہمیشہ برسا اور جو اسرار تو نے ان کے پاس امانت رکھے ہیں، ان کے ساتھ ہماری امداد فرما۔ حضرت سید الشہداء بہادر، سخی، نرم خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔

بعثت کے دوسرے سال (١٠) اور ایک قول کے مطابق چھٹے سال (١١) مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے تو آپ نے حرم مکہ شریف میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا۔ (١٢)

حضرت حمزہ نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی ۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجئے! اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا، ان کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لیے تھا (١٣)، جب ٢ھ / ٦٢٣ء میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ) بھیجا، جیسے کہ مدائنی نے کہا ہے (١٤)۔

ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں (١٥)۔

 
فما برحوا حتی انتدبت بغارۃ
لھم حیث حلوا ابتغی راحتہ الفضل
بامر رسول اللہ اول خافق
علیہ لو لم یکن لاح من قبلی
 
وہ اسلام دشمنی سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ میں ان کے ہر ٹھکانے پر حملے کے لیے آگے بڑھا، فضیلت کی راحت حاصل کرنا میرا مقصود تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔
 
حضرت سید الشہداء جنگ بدر میں اس حال میں شامل ہوئے کہ انہوں نے شتر مرغ (١٦) کا پر اپنے اوپر بطور نشان لگایا ہوا تھا ، انہوں نے اس جنگ میں زبردست جانبازی کا مظاہرہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے آگے دو تلواروں (١٧) کے ساتھ لڑتے رہے،کفارکے سورماؤںکو بکھیر دیا اور مشرکین کو کاری زخم لگائے (١٨) ۔

حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائے دیتے تھے، انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔

غزوہ احد میں آپ نے اکتیس مشرکوں کو جہنم رسید کیا، جیسا کہ امام نووی رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا (١٩)، پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا، یہ واقعہ ہفتے کے دن نصف شوال کو ٣ھ (٢٠) یا ٤ھ (٢١) (٦٢٤ء یا ٦٢٥ء) کو پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر ٥٧ سال تھی۔ ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف ٥٩ سال(٢٢) اور ایک دوسرے قول کے مطابق ٥٤ سال تھی۔(٢٣)

پھر مشرکین نے آپ کے اعضاء کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی، ناچا ر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے تھوک دیا۔ (٢٤)

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:

 
اگر یہ جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی، (٢٥) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمزہ کی اتنی عزت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔ (٢٦)
 

 
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ
 
جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دل اقدس کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزراتھا، اسے دیکھ کر آپ کو جلال آگیا، آپ نے فرمایا:

 
''تمھارے جیسے شخص کے ساتھ ہمیں کبھی تکلیف نہ دی جائیگی، ہم کسی ایسی جگہ کھڑے نہیں ہوئے جو ہمیں اس سے زیادہ غضب دلانے والی ہو۔''
 

اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ (٢٧)
ترجمہ: ''اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گیئ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے، آپ صبر کیجئے! اور آپ کا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر ہے، آپ ان کے بارے میں غمگین اور تنگ دل نہ ہوں ان کے فریبوں کے سبب، بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان کے ساتھ جو نیکوکار ہیں۔''

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا : ''اے رب ! بلکہ ہم صبر کریں گے۔''

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 
'' اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیونکہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔''(٢٨)
 

پھر ان کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے:

 
'' اے اللہ تعالیٰ کے رسول کے چچا! ـــــــــــ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر!ـــــــــــ اے حمزہ! اے نیک کام کرنے والے!ـــــــــــــ اے حمزہ! مصیبتوں کے دور کرنے والے ـــــــــــــ اے حمزہ! ــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرنے والے!'' (٢٩)
 

یہ بھی فرمایا: ہمارے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:

 
'' حمزہ ابن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیں ۔'' (٣٠) 
 

حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ ابن عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔ (٣١)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

افمن وعدناہ وعدا حسنا فھو لاقیہ (٣٢)۔
(کیا جس شخص سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے وہ اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔)

سدی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی۔(٣٣)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ (٣٤)
ترجمہ: '' اے اطمینان والی جان! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔''

سلفی کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت حمزہ ہیں۔ (٣٥)
 
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی۔ (٣٦)

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، یہی زیادہ صحیح ہے (٣٧)، یا ان کی نماز جنازہ کا نہ پڑھنا ان کی خصوصیت ہے (٣٨)۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے (٣٩) اور اس پر عظیم گنبد ہے، یہ گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد بن المستضئی العباسی کی والدہ نے ٥٩٠ ھ میں تعمیر کروایا۔

کہا جاتا ہے کہ قبر میں ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن جحش (٤٠) اور حضرت مصعب بن عمیر(٤١)، بعض علماء نے کہا کہ حضرت شماس بن عثمان ہیں، آپ کے مزار شریف کے سرہانے سید حسن بن محمد بن ابی نمی کے بیٹے عقیل کی قبر ہے، مسجد کے صحن میں بعض سادات امراء کی قبریں ہیں۔

 
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامدنا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ

جب نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غزوہ احد کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو اپنے شہیدوں پر روتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:

 
''لیکن حمزہ پر کوئی رونے والیاں نہیں ہیں (٤٢)۔'' 
 

اور آپ پر گریہ طاری ہوگیا، انصار نے اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے شہیدوں سے پہلے حضرت حمزہ پر روئیں، ایک مدت تک انصار کی خواتین کا معمول یہ رہا کہ وہ جب بھی کسی میت والے گھر جاتیں تو پہلے حضرت حمزہ پر روتیں (٤٣)۔

حضرت کعب بن مالک انصاری اپنے قصیدے میں اظہار غم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

 
ولقد ہددت لفقد حمزہ ھدۃ
ظلت بنات الجوف منھا ترعد
ولو انہ فجعت حراء بمثلہ 
لرایت راسی صخرھا یتھدد
قرم تمکن من ذؤابہ ھاشم
حیث النبوۃ والندا والسؤدد
والعاقر الکوم الجلاد اذا غدت
 
ریح یکاد الماء منھا یجمد
والتارک القرن الکمی مجندلا
یوم الکریھۃ والقنا یتقصد
وتراہ یرفل فی الحدید کانہ
 
ذو لبدۃ شثن البراثن اربد
عم النبی محمد و صفیہ
ورد الحمام فطاب ذاک المورد
وافی المنیۃ معلما فی اسرۃ
 
نصروا النبی ومنھم المستشھد
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ (٤٤)

حضرت حمزہ کے رحلت فرما جانے سے مجھ پر ایسا صدمہ ہوا ہے کہ میرا دل اور جگر لرز اٹھے ہیں۔
ایسا صدمہ اگر جبل حرا کو پہنچایا جاتا تو دیکھتا کہ اس کی چٹانوں کے دونوں کنارے تھرا اٹھتے۔
وہ ہاشمی خاندان کے معزز سردار تھے جہاں نبوت، سخاوت اور سرداری ہے۔
وہ طاقتور جانوروں کے گلے کو ذبح کرنے والے تھے جب ٹھنڈی ہوا سے پانی جمنے کے قریب ہوتا تھا (یعنی سخت سردی کے موسم میں)
جنگ کے دن جب نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہ بہادر مد مقابل کو کشتہ تیغ بنادیتے تھے۔
تو انہیں مسلح ہوکر فخر سے چلتا ہوا دیکھتا (تو کہتا کہ) وہ خاکستری رنگ والا، مضبوط پنجوں والا، ایال دار(شیر) ہے۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور برگزیدہ اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی تو وہ جگہ خوشگوار ہوگئی۔
انہوں نے اس حال میں موت سے ملاقات کی کہ ان پر(شتر مرغ کے پر کا) نشان لگا ہوا تھا، وہ مجاہدین کی ایسی جماعت میں تھے جس نے نبی اکرم اکی امداد کی اور ان میں سے کچھ لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔
 

No comments:

Post a Comment

Please Comment to Tell us About your Views

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...