امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(مکتوبات و تحریراتِ رضا کی روشنی میں ایک اصلاحی و ایمان افروز تحریر)
(یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء کے موقع پر پڑھا گیا)
آب و گل کی آمیزش ہوئی، تو انسان پیدا ہوا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس انسان کا انجام ایک قطرہئ آب ہے اور انجام ایک مشت خاک۔ اس آغاز و انجام کی کہانی پل بھر کی بھی ہوسکتی ہے، پہروں بھی چل سکتی ہے اور پیڑھی در پیڑھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہاں! انسان اتنا ناتواں ہے، اتنا بے کراں ہے۔ شاعر کے تخیل نے کیا خوب تصویر اتاری ہے
سمٹے تو اک مشتِ خاک ہے انساں
پھیلے تو کونین میں سما نہ سکے
وہ، جس کی فکری توانائیوں سے ملت کی تعمیر ہوتی ہے، معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ تاریخ اسے ہر دور میں رجلِ عظیم، بطلِ جلیل، مصلحِ امت اور مفکرِ ملت بناکر پیش کرتی رہتی ہے۔ وہ تو چلا گیا کہ اسے جانا ہی تھا مگر اس کی فکر زندہ ہے، اصلاحی کوششیں تابندہ ہیں، دینی و علمی نگارشات درخشندہ ہیں۔
تاریخ گواہ ہے، نہ فرعون و نمرود رہا، نہ ہامان و شداد رہا۔ ہاں! اس کی حکایت تو ضرور موجود ہے مگر کتنی عبرت ناک ہے، افسوس ناک ہے۔ کتنا بھولا ہے وہ جس نے زندگی نذرِ آوارگی کردی، یہ دانائی نہیں نادانی ہے، حماقت ہے۔ یقینا دانا ہے وہ، جس نے زندگی وقفِ بندگی کردی، اس نے زندگی گنوائی نہیں، کمائی ہے۔ بگاڑی نہیں، بنائی ہے اور بے شک اسی زندگی کو تابندگی ملی ہے، درخشندگی ملی ہے۔
دور کی بات تو دور ہے، قریب آئیں، جھانک کر دیکھیں۔ امام اعظم پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد ١١٤٠ ہے اور حنفیوں کی تعداد ٨٦ کروڑ سے زائد ہے۔ [١]
امام ربانی مجدد الف ثانی پر ٣٦٠ کتابیں وجود میں آئیں۔ [٢]
یہ تعداد ١٠٩٤ء تک کی ہے۔ اب تو اور زیادہ ہوگی۔ امام احمد رضا پر ٧٢٦ کتب و مقالات تحریر کئے گئے۔[٣]
یہ تو صرف اب تک کی بات ہے جبکہ یہ سلسلہ زلف یار طرحدار کی طرح دراز ہوتا چلا جارہا ہے۔ بتایا جائے! یہ زندگی، تابندگی، درخشندگی نہیں تو کیا ہے؟ یہ سوچنا محض بھول ہے کہ زندگی آنے جانے کا نام ہے، عیش و طرب کا نام ہے۔ حیات اور موت، یہ دو کنارے ہیں۔ نہ زندگی سے فرار ممکن ہے، نہ موت سے مفر۔ یہ محسوس زندگی کی بات ہے، ورنہ زندگی سے پہلے کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کی نوعیت جدا جدا ہے۔ زندگی میں زندگی سمائی ہوئی ہے۔ زندگی کبھی فنا نہیں ہوتی۔ انسان پر یہ بھید بتدریج آشکار ہوتا ہے۔ [٤]
امام احمد رضا نے ریاست و امارت میں آنکھ کھولی مگر عسرت و غربت میں زندگی گذاری۔ وہ عسرت و غربت نہیں جو دستِ سوال کرنے پر اکسائے۔ یہ تو صبر و استغنا اور زہد و قناعت سے عبارت ہے۔ ان کے مکتوب میں ایک جملہ یہ ہے: ”دنیا میں مومن کا قوتِ کفاف بس ہے۔” [٥]
کیسی بے لاگ تلقینِ صبر و شکر ہے جس کا نمونہ صرف سلف صالحین ہی کی سیرت میں مل سکتا ہے۔ ایک صاحب کو حضوری و باریابی حاصل تھی۔ نواب نانپارہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی گذارش کی۔ ذات کے خان پٹھان تو تھے ہی، غیرتِ خاندانی اور جلالِ ایمانی طیش میں آیا۔ قلم اٹھایا، لکھا تو یہ لکھا:
کروں مدح اہلِ دول رضا، پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا، میرا دین پارہ ناں نہیں [٦]
نواب رام پور نینی تال جارہے تھے۔ بریلی اسٹیشن آیا تو نواب کی اسپیشل ٹرین رک گئی۔ نواب کے مدار المہام (وزیر اعظم) اور سیدی مہدی حسن میاں اپنے نام سے ڈیڑھ ہزار روپے کی نذر لے کر خدمت میں حاضر ہوئے۔ غالباً بعد ظہر کا وقت تھا۔ آپ قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹنے کو کہتے ہیں) فرمارہے تھے۔ خبر ہوئی۔ چوکھٹ تک آئے۔ پوچھا، کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ ڈیڑھ ہزارنذر ہے اور واپسی کے وقت نواب ملاقات کے خواستگار ہیں۔ کھڑے کھڑے جواب دیا: یہ ڈیڑھ ہزار (اس وقت کا ڈیڑھ ہزار، آج کا ڈیڑھ لاکھ) کیا، کتنا بھی ہو، واپس لے جایئے اور نواب سے کہہ دیجئے کہ فقیر کا مکان اس قابل کہاں کہ ان کو بلاسکوں اور نہ میں والیانِ ریاست کے آداب سے واقف کہ خود جاسکوں۔ [٧]
کھڑے کھڑے ایسا جواب بظاہر بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر یہی شانِ فقیری ہے۔ یہی شانِ درویشی ہے جو حکمرانِ وقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ جس کی مثال بزرگانِ کاملین کی حیات و کردار میں ملتی ہے۔ نواب حیدر آباد کا واقعہ مولانا سیف الاسلام دہلوی کی زبانی سنئے: ”میں نے سوداگری محلہ کے کئی بزرگوں سے سنا کہ نظام حیدرآباد نے کئی بار لکھا کہ حضور کبھی میرے یہاں تشریف لاکر ممنون فرمائیں یا مجھے ہی نیاز کا موقع عنایت فرمائیں۔ تو آپ نے جواب دیا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کا عنایت فرمایا ہوا وقت صرف اسی کی اطاعت کے لئے ہے، میں آپ کی آؤ بھگت کا وقت کہاں سے لاؤں۔” [٨]
یہی مولانا سیف الاسلام دہلوی بیان کرتے ہیں: ”نواب حامد علی خاں مرحوم کے متعلق معلوم ہوا کہ کئی بار انہوں نے اعلیٰ حضرت کو لکھا کہ حضور رام پور تشریف لائیں تو میں بہت ہی خوش ہوں گا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجھے ہی زیارت کا موقع دیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ آپ صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مخالف شیعوں کی طرفداری اور ان کی تعزیہ داری اور ماتم وغیرہ کی بدعات میں معاون ہیں۔ لہٰذا میں نہ آپ کو دیکھنا جائز سمجھتا ہوں، نہ اپنی صورت دکھانا ہی پسند کرتا ہوں۔ [٩]
یہ تو نوابوں، راجاؤں کی بات تھی۔ اخص الخواص دیندار دوستوں کی نذر بھی امام احمد رضا نے قبول نہیں کی یا کبھی قبول کی تو حیلے بہانے سے اس سے زائد لوٹا دی۔ سفر عظیم آباد، پٹنہ کے دوران قاضی عبد الوحید فردوسی کے خسر صاحب نے آراستہ طشت میں کچھ تحفے اور نذر پیش کی تو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ میزبان نے کہا: حضور ساٹھ (٦٠) روپے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا: ساٹھ ہزار بھی ہوں تو فقیر اللہ کے کرم سے بے نیاز ہے۔ [١٠]
١٣٣٧ھ میں امام احمد رضا جبل پور تشریف لے گئے۔ قریب ایک ماہ چار دن قیام فرمایا۔ میزبان مولانا شاہ عبد السلام رضوی علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار روپے ہدیہ کئے۔ قبول تو کرلئے مگر اس سے کئی گنا زائد نقد اور طلائی زیوارت میزبان اور ان کے بچوں، بچیوں کو پیش کردیئے۔ [١١]
سفر بیسل پور کے دوران جو ان کو نذرانے ملے، وہ انہوں نے نعت خوانوں، ثناء خوانوں میں تقسیم کردیئے۔ [١٢]
پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔ امام احمد رضا کے بڑے صاحبزادے مولانا حامد رضا خاں تھے۔ نظام حیدرآباد، دکن نے ان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی۔ منصب قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ ہر طرح اصرار کیا، ہر طرح لالچ دیا تو مولانا موصوف نے یہ جواب دے کر نظام حیدرآباد کو مایوس کردیا۔ فرمایا: ”میں جس دروازہئ خدائے کریم کا فقیر ہوں، میرے لئے وہی کافی ہے۔”[١٣]
مولانا محمد ابراہیم رضا خاں، مولانا حامد رضا کے بیٹے تھے اور امام احمد رضا کے پوتے۔ قرب و جوار کے دیہات میں اور دور دراز کے شہروں میں ابراہیم رضا خاں دینی اجتماعات اپنے خرچے پر منعقد کرایا کرتے تھے[۔١٤]
وہ مدرسہ منظر اسلام کے مہتمم بھی تھے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے گھر کا اثاثہ اور زیوارت بیچ کر مدرسہ کے مصارف میں لگادیئے۔[١٥]
یہ تو سیرت نگاروں کی زبان ہے۔ اب خود صاحب سیرت کی زبانی سنیے: مولانا شاہ سید حمید الرحمن رضوی نواکھالی، بنگلہ دیش کے مشہور عالمِ دین تھے اور امام احمد رضا کے تلمیذ و عقیدت کیش۔ انہوں نے یکم ذی الحجہ ١٣٣٩ھ کو جواب مسائل کے لئے ایک مکتوب لکھا تو یہ بھی لکھا: ایک روپیہ بطور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے۔[١٦]
جواب میں لکھتے ہیں: جواب مسئلہ حاضر ہے۔ الحمد للہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اور آتا، اگر لاکھ روپئے ہوتے تو بعونہ تعالیٰ واپس کئے جاتے۔ یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہے نہ فتویٰ پر اجرت۔ [١٧]
کلکتہ سے حاجی نادر علی صاحب نے استفتاء کیا، اس میں ایک جملہ یہ تھا: خرچ وغیرہ کے لئے تو غلام خدمت کے لئے حاضر ہے۔[١٨]
جواب ارقام فرماتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی خرچ نہیں لیا جاتا، نہ اس کو اپنے حق میں روا رکھا جاتا ہے۔[١٩]
ریاست بہاولپور سے مولانا عبد الرحیم خانقاہی کے اس جملہ: اجرت جواب آنے پر دی جائے گی، [٢٠]
کا جواب قلمبند کرتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی اجرت نہیں لی جاتی، نہ پہلے، نہ بعد، نہ اپنے لئے اسے روا رکھا جاتا ہے۔ [٢١]
گوجر خان، راولپنڈی سے محمد جی صاحب نے کئی بار خطوط لکھ کر جوابِ مسائل حاصل کئے ہیں۔ ہر بار انہوں نے اجرت و قیمت کی بات کی ہے۔ قلم کا تیور دیکھئے۔ لکھتے ہیں: قیمت کاغذ کی نسبت پہلے آپ کو لکھ دیا گیا کہ یہاں فتویٰ اللہ کے لئے دیا جاتا ہے، بیچا نہیں جاتا۔ آئندہ کبھی یہ لفظ نہ لکھئے۔ [٢٢]
بریلی کے قریب تلہر، شاہ جہاں پور سے مولانا عبد الغفار خان نے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو فرماتے ہیں: یہ فقیر بفضلہ تعالیٰ غنی ہے۔ اموالِ خیرات نہیں لے سکتا۔[٢٣]
مولانا محرم علی چشتی، صدر انجمن نعمانیہ، لاہور سے مخاطب ہوکر تحریر فرماتے ہیں: اپنے سے زیادہ جسے پایا، اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے (تو) قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا۔ [٢٤]
ریاست پٹیالہ کے شیخ شیر محمد صاحب کے جواب میں یوں رقمطراز ہیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ بفضلہ تعالیٰ تمام ہندوستان و دیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ و خود عرب شریف و عراق سے استفتاء آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں چار چار سو فتوے جمع ہوجاتے ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت سے اس ١٣٣٧ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے ٩١ برس اور خود اس فقیر غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے ٥١ برس ہونے آئے، یعنی اس صفر کی ١٤ تاریخ کو پچاس برس چھ مہینے گذرے، اس نو کم سو برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے۔ بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔ بحمد للہ یہاں کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا، نہ لیا جائے گا۔ بعونہ تعالیٰ ولہ الحمد۔ معلوم نہیں، کون لوگ ایسے پست فطرت و دنی ہمت ہیں جنہوں نے یہ صیغہ کسب (آمدنی کا طریقہ) کا اختیار کررکھا ہے جس کے باعث دور دور کے ناوقف مسلمانان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی؟ بھائیو! ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین۔[٢٥]
میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو سارے جہاں کے پروردگار پر ہے، اگر وہ چاہے۔[٢٦]
علمی نگارشات میں، دینی خدمات میں امام احمد رضا کا ہر پل مصروف تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے: جو صاحب چاہیں اور جتنے دن چاہیں، فقیر کے یہاں اقامت فرمائیں۔ مہینہ دومہینہ، سال دو سال اور فقیر کا جو منٹ خالی دیکھیں یا جس وقت فقیر کو کوئی ذاتی کام کرتے دیکھیں، اسی وقت مواخذہ فرمائیں کہ تو اتنی دیر میں دوسرا کام کرسکتا تھا۔[٢٧]
خود تو حُبِّ دنیا سے آزاد تھے ہی، اپنی اولاد، اپنے تلامذہ، مریدین، خلفائ، احباب اور احناف علماء کو اسی کی سخت تاکید و تلقین کرتے تھے۔ ایک ضروری ہدایت نامہ کا یہ حصہ دیکھیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ کبھی خدمت دینی کو کسبِ معیشت کا ذریعہ بنایا گیا، نہ احناف علماء شریعت یا برادرانِ طریقت کو ایسی ہدایت کی گئی، بلکہ تاکید اور سخت تاکید کی جاتی ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا تو درکنار، اشاعت و حمایت سنت میں جلب منفعت مالی کا خیال دل میں بھی نہ لائیں کہ ان کی خدمت خالصاً لوجہ اللہ ہو۔[٢٨]
یہ تو نثر ہوئی، شاعری میں بھی سن لیجئے: کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو [٢٩]
ان جزئیات سے امام احمد رضا کا جو چہرہ سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ان کے نزدیک دنیا غلیظ ہے، فاحشہ ہے۔ دنیا سے محبت کا مطلب غلاظت و فواحشات سے لو لگانا ہے جو دین و دانش کے قطعاً خلاف ہے۔ تم خدا کے آگے جھکو، دنیا تمہارے آگے خود بہ خود جھک جائے گی۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ، مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (سورہ طلاق)
ترجمہ: ”اور جو اللہ سے ڈرے اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔”
اس لئے امام احمد رضا نے فقیر ی میں امیری کی، امیری میں فقیری نہیں، درویشی میں رئیسی کی، رئیسی میں درویشی نہیں۔ فقیری و درویشی وہ نہیں، جو شاہوں، نوابوں اور دین بیزار، دنیا پرست مالداروں، ساہوکاروں کی دریوزہ گری کرے۔ بلکہ عزت فقیری اور غیرت درویشی یہ ہے جس کی دہلیز پر وہ خود بخت خفتہ لے کر سر کے بل آئے اور بیدار بخت ہوکر جائے۔ یہ ہے امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے!
حوالہ و حواشی
جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، ٢٠٠٥ء، ٢/ ٢٤٨۔ نوٹ: شافعیوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ، مالکیوں کی تعداد چار کروڑ اور حنبلیوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔ یہ ایک عرب محقق کا سروے ہے جو انہوں نے چند سال قبل کیا تھا۔ (نفس مصدر)
جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی، ٢٠٠٥ء، ١/٨٥۔
محمد عیسیٰ رضوی، مولانا، قرطاس و قلم، ایڈوانس پرنٹنگ و پبلشنگ، دہلی، ٢٠٠٦ء، ص:١٣۔
غلام جابر شمس، ڈاکٹر، پروازِ خیال، ادارہ مسعودیہ، لاہور، ٢٠٠٥ء، ص:١٣۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیات اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٢٠٨۔
احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی،بمبئی، ١/٦٧۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٩٢۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٣۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٤۔
ماہنامہ معارفِ رضا، کراچی، شمارہ اپریل ٢٠٠٢ء، ص:١٦۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٥٦، ٥٧۔
ہفت روزہ دبدبہئ سکندری، رام پور، ٢٩/مارچ ١٩٢٠ء۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرت امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٣۔
عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء، ص:٨٩۔
عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء، ص:٧٩۔
احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٩/٥٧٤۔
(الف) احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٩/٥٧٥۔ (ب) غلام جابر شمس، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء، ص:٢٢٠۔
احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء، ١١/٦٦٠۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٦/١٧١۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء، ١١/٢٥٤۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، ٢٠٠١ء، ٢٠/٥٠٤۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ١٢/١٣٣۔
القرآن، ٢٦/ ١٢٧۔
(الف) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٤ء، ٦/٥٦٢۔ (ب) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٣/٢٣٠۔
غلام جابر شمس مصباحی، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیب رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء، ٢/٢٨٥، ٣٨٦۔
(الف) ماہنامہ ”الرضا” بریلی، شمارہ ربیع الثانی ١٣٣٨ھ۔ (ب) کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ٢/٣٣٦، ٣٣٧۔ (ج) امام احمد رضا اور تصوف، از علامہ محمد احمد مصباحی، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ١٩٨٨ء، ص: ٨٠، ٨١۔
احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١/٨١۔
محمود احمد قادری، مولانا، مکتوباتِ امام احمد رضا، ادارہئ تحقیقاتِ امام احمد رضا، بمبئی، ١٩٩٠ئ، ص: ١٩٦۔
محمد مصطفی رضا، الملفوظ، قادری کتاب گھر، بریلی، ٣/ ٢١۔
اظہارِ تشکر
ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کے صدر مولانا سید وجاہت رسول قادری صاحب کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر برجیس جہاں کو چند روز قبل شدید علالت کے باعث آغا خان ہسپتال کراچی میں داخل کیا گیا، جہاں ان کے معدے کا آپریشن کیا گیا۔ اب بفضلہ تعالیٰ محترمہ ڈاکٹر برجیس جہاں صاحبہ روبہ صحت ہیں اور انہیں ہسپتال سے گھر منتقل کردیا گیا ہے۔ ہم ان تمام رشتہ داروں، بزرگوں، احباب، علماء و مشائخ کے ممنون ہیں کہ جنہوں نے دور و نزدیک سے آکر عیادت کی۔ ٹیلیفون کے ذریعہ خیریت دریافت کی اور مختلف مساجد، مدارس اور اپنے گھروں میں ختم قرآن پاک/ ختم آیہئ کریمہ/ ختم قادریہ و ختم خواجگان کا اہتمام کرکے مریضہ کی شفاء کے لئے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ڈاکٹر برجیس کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے۔
آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
(مکتوبات و تحریراتِ رضا کی روشنی میں ایک اصلاحی و ایمان افروز تحریر)
(یہ مقالہ امام احمد رضا کانفرنس ٢٠٠٧ء کے موقع پر پڑھا گیا)
آب و گل کی آمیزش ہوئی، تو انسان پیدا ہوا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس انسان کا انجام ایک قطرہئ آب ہے اور انجام ایک مشت خاک۔ اس آغاز و انجام کی کہانی پل بھر کی بھی ہوسکتی ہے، پہروں بھی چل سکتی ہے اور پیڑھی در پیڑھی بھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ہاں! انسان اتنا ناتواں ہے، اتنا بے کراں ہے۔ شاعر کے تخیل نے کیا خوب تصویر اتاری ہے
سمٹے تو اک مشتِ خاک ہے انساں
پھیلے تو کونین میں سما نہ سکے
وہ، جس کی فکری توانائیوں سے ملت کی تعمیر ہوتی ہے، معاشرہ تکمیل پاتا ہے۔ تاریخ اسے ہر دور میں رجلِ عظیم، بطلِ جلیل، مصلحِ امت اور مفکرِ ملت بناکر پیش کرتی رہتی ہے۔ وہ تو چلا گیا کہ اسے جانا ہی تھا مگر اس کی فکر زندہ ہے، اصلاحی کوششیں تابندہ ہیں، دینی و علمی نگارشات درخشندہ ہیں۔
تاریخ گواہ ہے، نہ فرعون و نمرود رہا، نہ ہامان و شداد رہا۔ ہاں! اس کی حکایت تو ضرور موجود ہے مگر کتنی عبرت ناک ہے، افسوس ناک ہے۔ کتنا بھولا ہے وہ جس نے زندگی نذرِ آوارگی کردی، یہ دانائی نہیں نادانی ہے، حماقت ہے۔ یقینا دانا ہے وہ، جس نے زندگی وقفِ بندگی کردی، اس نے زندگی گنوائی نہیں، کمائی ہے۔ بگاڑی نہیں، بنائی ہے اور بے شک اسی زندگی کو تابندگی ملی ہے، درخشندگی ملی ہے۔
دور کی بات تو دور ہے، قریب آئیں، جھانک کر دیکھیں۔ امام اعظم پر لکھی گئی کتابوں کی تعداد ١١٤٠ ہے اور حنفیوں کی تعداد ٨٦ کروڑ سے زائد ہے۔ [١]
امام ربانی مجدد الف ثانی پر ٣٦٠ کتابیں وجود میں آئیں۔ [٢]
یہ تعداد ١٠٩٤ء تک کی ہے۔ اب تو اور زیادہ ہوگی۔ امام احمد رضا پر ٧٢٦ کتب و مقالات تحریر کئے گئے۔[٣]
یہ تو صرف اب تک کی بات ہے جبکہ یہ سلسلہ زلف یار طرحدار کی طرح دراز ہوتا چلا جارہا ہے۔ بتایا جائے! یہ زندگی، تابندگی، درخشندگی نہیں تو کیا ہے؟ یہ سوچنا محض بھول ہے کہ زندگی آنے جانے کا نام ہے، عیش و طرب کا نام ہے۔ حیات اور موت، یہ دو کنارے ہیں۔ نہ زندگی سے فرار ممکن ہے، نہ موت سے مفر۔ یہ محسوس زندگی کی بات ہے، ورنہ زندگی سے پہلے کی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کی نوعیت جدا جدا ہے۔ زندگی میں زندگی سمائی ہوئی ہے۔ زندگی کبھی فنا نہیں ہوتی۔ انسان پر یہ بھید بتدریج آشکار ہوتا ہے۔ [٤]
امام احمد رضا نے ریاست و امارت میں آنکھ کھولی مگر عسرت و غربت میں زندگی گذاری۔ وہ عسرت و غربت نہیں جو دستِ سوال کرنے پر اکسائے۔ یہ تو صبر و استغنا اور زہد و قناعت سے عبارت ہے۔ ان کے مکتوب میں ایک جملہ یہ ہے: ”دنیا میں مومن کا قوتِ کفاف بس ہے۔” [٥]
کیسی بے لاگ تلقینِ صبر و شکر ہے جس کا نمونہ صرف سلف صالحین ہی کی سیرت میں مل سکتا ہے۔ ایک صاحب کو حضوری و باریابی حاصل تھی۔ نواب نانپارہ کی شان میں قصیدہ لکھنے کی گذارش کی۔ ذات کے خان پٹھان تو تھے ہی، غیرتِ خاندانی اور جلالِ ایمانی طیش میں آیا۔ قلم اٹھایا، لکھا تو یہ لکھا:
کروں مدح اہلِ دول رضا، پڑے اس بلا میں مِری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا، میرا دین پارہ ناں نہیں [٦]
نواب رام پور نینی تال جارہے تھے۔ بریلی اسٹیشن آیا تو نواب کی اسپیشل ٹرین رک گئی۔ نواب کے مدار المہام (وزیر اعظم) اور سیدی مہدی حسن میاں اپنے نام سے ڈیڑھ ہزار روپے کی نذر لے کر خدمت میں حاضر ہوئے۔ غالباً بعد ظہر کا وقت تھا۔ آپ قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر لیٹنے کو کہتے ہیں) فرمارہے تھے۔ خبر ہوئی۔ چوکھٹ تک آئے۔ پوچھا، کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ ڈیڑھ ہزارنذر ہے اور واپسی کے وقت نواب ملاقات کے خواستگار ہیں۔ کھڑے کھڑے جواب دیا: یہ ڈیڑھ ہزار (اس وقت کا ڈیڑھ ہزار، آج کا ڈیڑھ لاکھ) کیا، کتنا بھی ہو، واپس لے جایئے اور نواب سے کہہ دیجئے کہ فقیر کا مکان اس قابل کہاں کہ ان کو بلاسکوں اور نہ میں والیانِ ریاست کے آداب سے واقف کہ خود جاسکوں۔ [٧]
کھڑے کھڑے ایسا جواب بظاہر بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ مگر یہی شانِ فقیری ہے۔ یہی شانِ درویشی ہے جو حکمرانِ وقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ جس کی مثال بزرگانِ کاملین کی حیات و کردار میں ملتی ہے۔ نواب حیدر آباد کا واقعہ مولانا سیف الاسلام دہلوی کی زبانی سنئے: ”میں نے سوداگری محلہ کے کئی بزرگوں سے سنا کہ نظام حیدرآباد نے کئی بار لکھا کہ حضور کبھی میرے یہاں تشریف لاکر ممنون فرمائیں یا مجھے ہی نیاز کا موقع عنایت فرمائیں۔ تو آپ نے جواب دیا: میرے پاس اللہ تعالیٰ کا عنایت فرمایا ہوا وقت صرف اسی کی اطاعت کے لئے ہے، میں آپ کی آؤ بھگت کا وقت کہاں سے لاؤں۔” [٨]
یہی مولانا سیف الاسلام دہلوی بیان کرتے ہیں: ”نواب حامد علی خاں مرحوم کے متعلق معلوم ہوا کہ کئی بار انہوں نے اعلیٰ حضرت کو لکھا کہ حضور رام پور تشریف لائیں تو میں بہت ہی خوش ہوں گا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجھے ہی زیارت کا موقع دیں۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ آپ صحابہئ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مخالف شیعوں کی طرفداری اور ان کی تعزیہ داری اور ماتم وغیرہ کی بدعات میں معاون ہیں۔ لہٰذا میں نہ آپ کو دیکھنا جائز سمجھتا ہوں، نہ اپنی صورت دکھانا ہی پسند کرتا ہوں۔ [٩]
یہ تو نوابوں، راجاؤں کی بات تھی۔ اخص الخواص دیندار دوستوں کی نذر بھی امام احمد رضا نے قبول نہیں کی یا کبھی قبول کی تو حیلے بہانے سے اس سے زائد لوٹا دی۔ سفر عظیم آباد، پٹنہ کے دوران قاضی عبد الوحید فردوسی کے خسر صاحب نے آراستہ طشت میں کچھ تحفے اور نذر پیش کی تو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ میزبان نے کہا: حضور ساٹھ (٦٠) روپے ہیں۔ تو آپ نے جواب دیا: ساٹھ ہزار بھی ہوں تو فقیر اللہ کے کرم سے بے نیاز ہے۔ [١٠]
١٣٣٧ھ میں امام احمد رضا جبل پور تشریف لے گئے۔ قریب ایک ماہ چار دن قیام فرمایا۔ میزبان مولانا شاہ عبد السلام رضوی علیہ الرحمۃ نے ایک ہزار روپے ہدیہ کئے۔ قبول تو کرلئے مگر اس سے کئی گنا زائد نقد اور طلائی زیوارت میزبان اور ان کے بچوں، بچیوں کو پیش کردیئے۔ [١١]
سفر بیسل پور کے دوران جو ان کو نذرانے ملے، وہ انہوں نے نعت خوانوں، ثناء خوانوں میں تقسیم کردیئے۔ [١٢]
پھل اپنے درخت سے پہچانا جاتا ہے۔ امام احمد رضا کے بڑے صاحبزادے مولانا حامد رضا خاں تھے۔ نظام حیدرآباد، دکن نے ان کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی۔ منصب قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا۔ ہر طرح اصرار کیا، ہر طرح لالچ دیا تو مولانا موصوف نے یہ جواب دے کر نظام حیدرآباد کو مایوس کردیا۔ فرمایا: ”میں جس دروازہئ خدائے کریم کا فقیر ہوں، میرے لئے وہی کافی ہے۔”[١٣]
مولانا محمد ابراہیم رضا خاں، مولانا حامد رضا کے بیٹے تھے اور امام احمد رضا کے پوتے۔ قرب و جوار کے دیہات میں اور دور دراز کے شہروں میں ابراہیم رضا خاں دینی اجتماعات اپنے خرچے پر منعقد کرایا کرتے تھے[۔١٤]
وہ مدرسہ منظر اسلام کے مہتمم بھی تھے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے گھر کا اثاثہ اور زیوارت بیچ کر مدرسہ کے مصارف میں لگادیئے۔[١٥]
یہ تو سیرت نگاروں کی زبان ہے۔ اب خود صاحب سیرت کی زبانی سنیے: مولانا شاہ سید حمید الرحمن رضوی نواکھالی، بنگلہ دیش کے مشہور عالمِ دین تھے اور امام احمد رضا کے تلمیذ و عقیدت کیش۔ انہوں نے یکم ذی الحجہ ١٣٣٩ھ کو جواب مسائل کے لئے ایک مکتوب لکھا تو یہ بھی لکھا: ایک روپیہ بطور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے۔[١٦]
جواب میں لکھتے ہیں: جواب مسئلہ حاضر ہے۔ الحمد للہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اور آتا، اگر لاکھ روپئے ہوتے تو بعونہ تعالیٰ واپس کئے جاتے۔ یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہے نہ فتویٰ پر اجرت۔ [١٧]
کلکتہ سے حاجی نادر علی صاحب نے استفتاء کیا، اس میں ایک جملہ یہ تھا: خرچ وغیرہ کے لئے تو غلام خدمت کے لئے حاضر ہے۔[١٨]
جواب ارقام فرماتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی خرچ نہیں لیا جاتا، نہ اس کو اپنے حق میں روا رکھا جاتا ہے۔[١٩]
ریاست بہاولپور سے مولانا عبد الرحیم خانقاہی کے اس جملہ: اجرت جواب آنے پر دی جائے گی، [٢٠]
کا جواب قلمبند کرتے ہیں: یہاں فتویٰ پر کوئی اجرت نہیں لی جاتی، نہ پہلے، نہ بعد، نہ اپنے لئے اسے روا رکھا جاتا ہے۔ [٢١]
گوجر خان، راولپنڈی سے محمد جی صاحب نے کئی بار خطوط لکھ کر جوابِ مسائل حاصل کئے ہیں۔ ہر بار انہوں نے اجرت و قیمت کی بات کی ہے۔ قلم کا تیور دیکھئے۔ لکھتے ہیں: قیمت کاغذ کی نسبت پہلے آپ کو لکھ دیا گیا کہ یہاں فتویٰ اللہ کے لئے دیا جاتا ہے، بیچا نہیں جاتا۔ آئندہ کبھی یہ لفظ نہ لکھئے۔ [٢٢]
بریلی کے قریب تلہر، شاہ جہاں پور سے مولانا عبد الغفار خان نے ایک مسئلہ دریافت کیا، تو فرماتے ہیں: یہ فقیر بفضلہ تعالیٰ غنی ہے۔ اموالِ خیرات نہیں لے سکتا۔[٢٣]
مولانا محرم علی چشتی، صدر انجمن نعمانیہ، لاہور سے مخاطب ہوکر تحریر فرماتے ہیں: اپنے سے زیادہ جسے پایا، اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے (تو) قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا۔ [٢٤]
ریاست پٹیالہ کے شیخ شیر محمد صاحب کے جواب میں یوں رقمطراز ہیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ بفضلہ تعالیٰ تمام ہندوستان و دیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ و خود عرب شریف و عراق سے استفتاء آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں چار چار سو فتوے جمع ہوجاتے ہیں۔ بحمدہ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت سے اس ١٣٣٧ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے ٩١ برس اور خود اس فقیر غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے ٥١ برس ہونے آئے، یعنی اس صفر کی ١٤ تاریخ کو پچاس برس چھ مہینے گذرے، اس نو کم سو برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے۔ بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔ بحمد للہ یہاں کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا، نہ لیا جائے گا۔ بعونہ تعالیٰ ولہ الحمد۔ معلوم نہیں، کون لوگ ایسے پست فطرت و دنی ہمت ہیں جنہوں نے یہ صیغہ کسب (آمدنی کا طریقہ) کا اختیار کررکھا ہے جس کے باعث دور دور کے ناوقف مسلمانان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی؟ بھائیو! ما اسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العالمین۔[٢٥]
میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو سارے جہاں کے پروردگار پر ہے، اگر وہ چاہے۔[٢٦]
علمی نگارشات میں، دینی خدمات میں امام احمد رضا کا ہر پل مصروف تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے: جو صاحب چاہیں اور جتنے دن چاہیں، فقیر کے یہاں اقامت فرمائیں۔ مہینہ دومہینہ، سال دو سال اور فقیر کا جو منٹ خالی دیکھیں یا جس وقت فقیر کو کوئی ذاتی کام کرتے دیکھیں، اسی وقت مواخذہ فرمائیں کہ تو اتنی دیر میں دوسرا کام کرسکتا تھا۔[٢٧]
خود تو حُبِّ دنیا سے آزاد تھے ہی، اپنی اولاد، اپنے تلامذہ، مریدین، خلفائ، احباب اور احناف علماء کو اسی کی سخت تاکید و تلقین کرتے تھے۔ ایک ضروری ہدایت نامہ کا یہ حصہ دیکھیں: یہاں بحمدہ تعالیٰ نہ کبھی خدمت دینی کو کسبِ معیشت کا ذریعہ بنایا گیا، نہ احناف علماء شریعت یا برادرانِ طریقت کو ایسی ہدایت کی گئی، بلکہ تاکید اور سخت تاکید کی جاتی ہے کہ دستِ سوال دراز کرنا تو درکنار، اشاعت و حمایت سنت میں جلب منفعت مالی کا خیال دل میں بھی نہ لائیں کہ ان کی خدمت خالصاً لوجہ اللہ ہو۔[٢٨]
یہ تو نثر ہوئی، شاعری میں بھی سن لیجئے: کانٹا مرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجئے کہ جگر کو خبر نہ ہو [٢٩]
ان جزئیات سے امام احمد رضا کا جو چہرہ سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ ان کے نزدیک دنیا غلیظ ہے، فاحشہ ہے۔ دنیا سے محبت کا مطلب غلاظت و فواحشات سے لو لگانا ہے جو دین و دانش کے قطعاً خلاف ہے۔ تم خدا کے آگے جھکو، دنیا تمہارے آگے خود بہ خود جھک جائے گی۔
وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہ، مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (سورہ طلاق)
ترجمہ: ”اور جو اللہ سے ڈرے اس کے لئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہو۔”
اس لئے امام احمد رضا نے فقیر ی میں امیری کی، امیری میں فقیری نہیں، درویشی میں رئیسی کی، رئیسی میں درویشی نہیں۔ فقیری و درویشی وہ نہیں، جو شاہوں، نوابوں اور دین بیزار، دنیا پرست مالداروں، ساہوکاروں کی دریوزہ گری کرے۔ بلکہ عزت فقیری اور غیرت درویشی یہ ہے جس کی دہلیز پر وہ خود بخت خفتہ لے کر سر کے بل آئے اور بیدار بخت ہوکر جائے۔ یہ ہے امام احمد رضا کی شانِ بے نیازی۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے!
حوالہ و حواشی
جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، ٢٠٠٥ء، ٢/ ٢٤٨۔ نوٹ: شافعیوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ، مالکیوں کی تعداد چار کروڑ اور حنبلیوں کی تعداد چالیس لاکھ ہے۔ یہ ایک عرب محقق کا سروے ہے جو انہوں نے چند سال قبل کیا تھا۔ (نفس مصدر)
جہانِ امام ربانی، امام ربانی فاؤنڈیشن، کراچی، ٢٠٠٥ء، ١/٨٥۔
محمد عیسیٰ رضوی، مولانا، قرطاس و قلم، ایڈوانس پرنٹنگ و پبلشنگ، دہلی، ٢٠٠٦ء، ص:١٣۔
غلام جابر شمس، ڈاکٹر، پروازِ خیال، ادارہ مسعودیہ، لاہور، ٢٠٠٥ء، ص:١٣۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیات اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٢٠٨۔
احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی،بمبئی، ١/٦٧۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٩٢۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٣۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرتِ امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٤۔
ماہنامہ معارفِ رضا، کراچی، شمارہ اپریل ٢٠٠٢ء، ص:١٦۔
محمد ظفر الدین، مولانا، حیاتِ اعلیٰ حضرت، قادری کتاب گھر، بریلی، ١/٥٦، ٥٧۔
ہفت روزہ دبدبہئ سکندری، رام پور، ٢٩/مارچ ١٩٢٠ء۔
عبد الحکیم اختر، مولانا، سیرت امام احمد رضا، پروگریسیو بکس، لاہور، ١٩٩٥ء، ص:٥٣۔
عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء، ص:٨٩۔
عبد الواجد قادری، مولانا، حیاتِ مفسر اعظم، القرآن اسلامک فاؤنڈیشن، نیدرلینڈ، ٢٠٠٣ء، ص:٧٩۔
احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٩/٥٧٤۔
(الف) احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٩/٥٧٥۔ (ب) غلام جابر شمس، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء، ص:٢٢٠۔
احمد رضا خاں، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء، ١١/٦٦٠۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٦/١٧١۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٧ء، ١١/٢٥٤۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، ٢٠٠١ء، ٢٠/٥٠٤۔
احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ١٢/١٣٣۔
القرآن، ٢٦/ ١٢٧۔
(الف) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ مع تخریج و ترجمہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، ١٩٩٤ء، ٦/٥٦٢۔ (ب) احمد رضا خان، امام، فتاویٰ رضویہ، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١٩٩٤ء، ٣/٢٣٠۔
غلام جابر شمس مصباحی، ڈاکٹر، کلیاتِ مکاتیب رضا، مکتبہ نبویہ، مکتبہ بحر العلوم، لاہور، ٢٠٠٥ء، ٢/٢٨٥، ٣٨٦۔
(الف) ماہنامہ ”الرضا” بریلی، شمارہ ربیع الثانی ١٣٣٨ھ۔ (ب) کلیاتِ مکاتیبِ رضا، ٢/٣٣٦، ٣٣٧۔ (ج) امام احمد رضا اور تصوف، از علامہ محمد احمد مصباحی، المجمع الاسلامی، مبارک پور، ١٩٨٨ء، ص: ٨٠، ٨١۔
احمد رضا خان، امام، حدائقِ بخشش، رضا اکیڈمی، بمبئی، ١/٨١۔
محمود احمد قادری، مولانا، مکتوباتِ امام احمد رضا، ادارہئ تحقیقاتِ امام احمد رضا، بمبئی، ١٩٩٠ئ، ص: ١٩٦۔
محمد مصطفی رضا، الملفوظ، قادری کتاب گھر، بریلی، ٣/ ٢١۔
اظہارِ تشکر
ادارہ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹرنیشنل کے صدر مولانا سید وجاہت رسول قادری صاحب کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر برجیس جہاں کو چند روز قبل شدید علالت کے باعث آغا خان ہسپتال کراچی میں داخل کیا گیا، جہاں ان کے معدے کا آپریشن کیا گیا۔ اب بفضلہ تعالیٰ محترمہ ڈاکٹر برجیس جہاں صاحبہ روبہ صحت ہیں اور انہیں ہسپتال سے گھر منتقل کردیا گیا ہے۔ ہم ان تمام رشتہ داروں، بزرگوں، احباب، علماء و مشائخ کے ممنون ہیں کہ جنہوں نے دور و نزدیک سے آکر عیادت کی۔ ٹیلیفون کے ذریعہ خیریت دریافت کی اور مختلف مساجد، مدارس اور اپنے گھروں میں ختم قرآن پاک/ ختم آیہئ کریمہ/ ختم قادریہ و ختم خواجگان کا اہتمام کرکے مریضہ کی شفاء کے لئے دعا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ڈاکٹر برجیس کو صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے۔
آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
No comments:
Post a Comment
Please Comment to Tell us About your Views