حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ
عشرہ مبشرہ سلسلہ کے چھٹے صحابی کا تعارف
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ
زبیر نام، ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ صرف سولہ برس کے تھے کہ نورِ ایمان نے ان کے خانۂ دل کو منور کردیا بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانچویں یا چھٹے مسلمان تھے،لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا،تاہم سابقین اسلام میں وہ ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے ،قبول اسلام کے بعد ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا،کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے،یہ سن کر جذبہ جانثاری سے اس قدر بیخود ہوئے کہ اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا زبیر !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ (خدانخواستہ) حضور گرفتار کرلیے گئے ہیں،سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی،اہل سیر کا بیان ہے کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔
عام بلاکشان اسلام کی طرح حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مشرکین مکہ کے پنجہ ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے ،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کی،یہاں تک کہ چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا، اوراس قدر دھونی دیتاکہ دم گھٹنے لگتا؛ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہے جاتے کچھ بھی کرو اب میں کافر نہیں ہوسکتا۔
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا، اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطوریادگار حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے وارث حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔
وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔
معرکہ بدر میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔
جنگ احد میں جب تیراندازوں کی بے احتیاطی سے فتح شکست سے مبدل ہوگئی اور مشرکین کے اچانک حملے سے غازیان دین کے پاؤں متزلزل ہوگئے،یہاں تک کہ شمع نبوت کے گرد صرف چودہ صحابہ پروانہ وار ثابت قدم رہ گئے تھے تو اس وقت بھی یہ جان نثارحواری جان نثاری کا فرض اداکررہا تھا۔
بنوقریظ اورمسلمانوں میں باہم معاہدہ تھا،لیکن عام سیلاب میں وہ بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کے لیے کسی کو بھیجنا چاہا اورتین بارفرمایا"کون اس قوم کی خبر لائے گا؟" حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہر مرتبہ بڑھ کر عرض کیا کہ "میں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا"ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں،میرا حواری زبیر ہے،
غزوۂ خندق کے بعد غزوۂ ٔبنو قریظہ اوربیعت رضوان میں شریک ہوئے پھر خیبر کی مہم میں غیر معمولی شجاعت دکھائی،مرحب یہودی خیبر کا رئیس تھا وہ مقتول ہوا تو اس کا بھائی یاسر غضبناک ہوکر"ھل من مبارز’’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیا، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا وہ اس قدر تنومند اور قوی ہیکل تھا کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میرا لخت جگر آج شہید ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں!زبیر اس کو مارے گا،چنانچہ درحقیقت تھوڑی دیر رد وبدل کے بعد وہ واصل جہنم ہوا۔
رمضان ۸ھ میں دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کا قصد کیا اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ اس سرزمین میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل طرح طرح کے مصائب وشدائد برداشت کرنے کے بعد بے بسی کی حالت میں نکلنے پر مجبور ہوئے تھے، اس عظیم الشان فوج کے متعدد دستے بنائے گئے تھے، سب سے چھوٹا اورآخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اس کے علمبردار تھے۔
شہادت جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مخالفین کے ساتھ شامل ہوئے۔ لیکن جلد ہی رسول اللہ کی ایک پیشن گوئی کو یاد کرکے آپ نے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جو کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی آپ نماز پڑھنے لگے اور جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمروبن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اورحواری رسول رضی اللہ تعالی عنہ کا سرتن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس !جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اورجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے بارہا مصائب وشدائدکے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اورپیروِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شقاوت اوربے رحمی کا شکار ہوگیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
ابن جرموزحضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار اورزرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی رضی اللہ تعالی عنہ میں حاضر ہوا اورفخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا، جناب مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے چونسٹھ برس کی عمرپائی اور ۳۶ھ میں شہید ہوکر وادی السباع میں سپرد خاک ہوئے، فنور اللہ مرقدہ وحسن مثواہ-
(سہوا" ہوئی کسی غلطی پر اللہ پاک معاف فرمائے )
حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ
زبیر نام، ابوعبداللہ کنیت،حواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لقب،والد کا نام عوام اوروالدہ کا نام صفیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے،زبیر بن العوام بن خویلدبن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی القرشی الاسدی،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب قصی بن کلاب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ...سے مل جاتا ہے اور چونکہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپی تھیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے، اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بھی حقیقی بھتیجے تھے اورحضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے داماد ہونے کے سبب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساڑھو بھی تھے اوراس طرح ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کو متعدد نسبتیں حاصل تھیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھائیس سال قبل پیدا ہوئے،بچپن کے حالات بہت کم معلوم ہیں،لیکن اس قدر یقینی ہے کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ابتداہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، اس تربیت کا یہ اثر تھاکہ وہ بچپن ہی میں بڑے بڑے مردوں کا مقابلہ کرنے لگے تھے،ایک دفعہ مکہ میں ایک جوان آدمی سے مقابلہ پیش آیا، انہوں نے ایسا ہاتھ مارا کہ اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا،لوگ اسے لاد کر شکایۃً حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس لائے،تو انہوں نے معذرت و عفوخواہی کےبجائے سب سے پہلے یہ پوچھا کہ تم نے زبیر کو کیسا پایا،بہادر یا بزدل۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ صرف سولہ برس کے تھے کہ نورِ ایمان نے ان کے خانۂ دل کو منور کردیا بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پانچویں یا چھٹے مسلمان تھے،لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا،تاہم سابقین اسلام میں وہ ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے ،قبول اسلام کے بعد ایک دفعہ کسی نے مشہور کردیا،کہ مشرکین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرلیا ہے،یہ سن کر جذبہ جانثاری سے اس قدر بیخود ہوئے کہ اسی وقت ننگی تلوار کھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا زبیر !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ (خدانخواستہ) حضور گرفتار کرلیے گئے ہیں،سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی،اہل سیر کا بیان ہے کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔
عام بلاکشان اسلام کی طرح حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ مشرکین مکہ کے پنجہ ظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے ،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کی،یہاں تک کہ چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا، اوراس قدر دھونی دیتاکہ دم گھٹنے لگتا؛ لیکن وہ ہمیشہ یہی کہے جاتے کچھ بھی کرو اب میں کافر نہیں ہوسکتا۔
غزوات میں ممتاز حیثیت سے شریک رہے،سب سے پہلے غزوۂ ٔبدر پیش آیا،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس معرکہ میں نہایت جانبازی ودلیری کے ساتھ حصہ لیا، جس طرف نکل جاتے تھے غنیم کی صفیں تہ وبالا کردیتے،ایک مشرک نے ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہوکر مبارزت چاہی، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بڑھ کر اس سے لپٹ گئے،اور دونوں قلابازیاں کھاتے ہوئے نیچے آئے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں میں جو سب سے پہلے زمین پر رکے گا وہ مقتول ہوگا،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ مشرک پہلے زمین پر گرکر حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے واصلِ جہنم ہوا، اسی طرح عبیدہ بن سعید سے مقابلہ پیش آیا جو سر سے پاؤں تک زرہ پہنےہوئے تھا،صرف دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے تاک کر اس زور سے آنکھ میں نیزہ مارا کہ اس پارنکل گیا،اس کی لاش پر بیٹھ کر بمشکل نیزہ نکالا،پھل ٹیڑھا ہوگیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطوریادگار حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس نیزہ کو لے لیا،اس کے بعد پھر خلفاء میں تبرکا ًمنتقل ہوتا رہا،یہاں تک خلیفہ ثالث رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے وارث حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچا اوران کی شہادت تک ان کے پاس موجودتھا۔
وہ جس بے جگری کے ساتھ بدرمیں لڑے اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ ان کی تلوار میں دندانے پڑگئے تھے،تمام جسم زخموں سے چھلنی ہوگیا تھا، خصوصاً ایک زخم اس قدر کاری تھا کہ وہاں پر ہمیشہ کے لیے گڑھا پڑگیا تھا، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ہم ان میں انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتے تھے۔
معرکہ بدر میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ زرد عمامہ باندھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آج ملائکہ بھی اسی وضع میں آئے ہیں غرض مسلمانوں کی شجاعت وثابت قدمی نے میدان مارلیا حق غالب رہا اورباطل کو شکست ہوئی۔
جنگ احد میں جب تیراندازوں کی بے احتیاطی سے فتح شکست سے مبدل ہوگئی اور مشرکین کے اچانک حملے سے غازیان دین کے پاؤں متزلزل ہوگئے،یہاں تک کہ شمع نبوت کے گرد صرف چودہ صحابہ پروانہ وار ثابت قدم رہ گئے تھے تو اس وقت بھی یہ جان نثارحواری جان نثاری کا فرض اداکررہا تھا۔
بنوقریظ اورمسلمانوں میں باہم معاہدہ تھا،لیکن عام سیلاب میں وہ بھی اپنے عہد پر قائم نہ رہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کے لیے کسی کو بھیجنا چاہا اورتین بارفرمایا"کون اس قوم کی خبر لائے گا؟" حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہر مرتبہ بڑھ کر عرض کیا کہ "میں" آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا"ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں،میرا حواری زبیر ہے،
غزوۂ خندق کے بعد غزوۂ ٔبنو قریظہ اوربیعت رضوان میں شریک ہوئے پھر خیبر کی مہم میں غیر معمولی شجاعت دکھائی،مرحب یہودی خیبر کا رئیس تھا وہ مقتول ہوا تو اس کا بھائی یاسر غضبناک ہوکر"ھل من مبارز’’ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میدان میں آیا، حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے بڑھ کر اس کا مقابلہ کیا وہ اس قدر تنومند اور قوی ہیکل تھا کہ ان کی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا یا رسول اللہ! میرا لخت جگر آج شہید ہوگا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں!زبیر اس کو مارے گا،چنانچہ درحقیقت تھوڑی دیر رد وبدل کے بعد وہ واصل جہنم ہوا۔
رمضان ۸ھ میں دس ہزار مجاہدین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کا قصد کیا اورشاہانہ جاہ وجلال کے ساتھ اس سرزمین میں داخل ہوئے جہاں سے آٹھ سال قبل طرح طرح کے مصائب وشدائد برداشت کرنے کے بعد بے بسی کی حالت میں نکلنے پر مجبور ہوئے تھے، اس عظیم الشان فوج کے متعدد دستے بنائے گئے تھے، سب سے چھوٹا اورآخری دستہ وہ تھا جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود تھے،حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اس کے علمبردار تھے۔
شہادت جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے مخالفین کے ساتھ شامل ہوئے۔ لیکن جلد ہی رسول اللہ کی ایک پیشن گوئی کو یاد کرکے آپ نے اس جنگ سے علیحدگی اختیار کی جو کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئی آپ نماز پڑھنے لگے اور جیسے ہی سجدہ میں گئے کہ عمروبن جرموز نے غداری کرکے تلوار کا وار کیا اورحواری رسول رضی اللہ تعالی عنہ کا سرتن سے جدا ہوکر خاک و خون میں تڑپنے لگا، افسوس !جس نے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں کبھی اپنی جان کی پروانہ کی اورجس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے بارہا مصائب وشدائدکے پہاڑ ہٹائے تھے وہ آج خود ایک کلمہ خوان اورپیروِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شقاوت اوربے رحمی کا شکار ہوگیا۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
ابن جرموزحضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی تلوار اورزرہ وغیرہ لے کر بارگاہِ مرتضوی رضی اللہ تعالی عنہ میں حاضر ہوا اورفخر کے ساتھ اپنا کارنامہ بیان کیا، جناب مرتضیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے تلوار پر ایک حسرت کی نظر ڈال کر فرمایا اس نے بارہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے مصائب کے بادل ہٹائے ہیں اے ابن صفیہ کے قاتل تجھے بشارت ہو کہ جہنم تیری منتظر ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے چونسٹھ برس کی عمرپائی اور ۳۶ھ میں شہید ہوکر وادی السباع میں سپرد خاک ہوئے، فنور اللہ مرقدہ وحسن مثواہ-
(سہوا" ہوئی کسی غلطی پر اللہ پاک معاف فرمائے )
No comments:
Post a Comment
Please Comment to Tell us About your Views